نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
by میر تقی میر

نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
گئے گزرے ہیں آخر ایسے کیا ہم

کھنچے گی کب وہ تیغ ناز یا رب
رہے ہیں دیر سے سر کو جھکا ہم

نہ جانا یہ کہ کہتے ہیں کسے پیار
رہیں بے لطفیاں ہی یاں تو باہم

بنے کیا خال و زلف و خط سے دیکھیں
ہوئے ہیں کتنے یہ کافر فراہم

مرض ہی عشق کا بے ڈول ہے کچھ
بہت کرتے ہیں اپنی سی دوا ہم

کہیں پیوند ہوں یا رب زمیں کے
پھریں گے اس سے یوں کب تک جدا ہم

ہوس تھی عشق کرنے میں ولیکن
بہت نادم ہوئے دل کو لگا ہم

کب آگے کوئی مرتا تھا کسی پر
جہاں میں کر گئے رسم وفا ہم

تعارف کیا رہا اہل چمن سے
ہوئے اک عمر کے پیچھے رہا ہم

موا جس کے لئے اس کو نہ دیکھا
نہ سمجھے میرؔ کا کچھ مدعا ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse