نہیں وسواس جی گنوانے کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں وسواس جی گنوانے کے
by میر تقی میر

نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے

میرے تغییر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے

دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے

اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے

مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے

اب گریباں کہاں کہ اے ناصح
چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے

چشم نجم سپہر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے

دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمہارے آنے کے

کب تو سوتا تھا گھر مرے آ کر
جاگے تالا غریب خانے کے

مژہ ابرو نگہ سے اس کی میرؔ
کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے

تیر و تلوار و سیل یکجا ہیں
سارے اسباب مار جانے کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse