نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
by میر تقی میر

نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاد وہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا

کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی بھی نادانی کا

وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب
ہم نے سر نامہ کیا کاغذ افشانی کا

اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میرؔ ایسی مسلمانی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse