نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں
by میر تقی میر

نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں

جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اس بھی جہان میں

یا رب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عشق بھر رہا ہے تمام آسمان میں

ہم اس سے آہ سوز دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتش دروں سے پھپھولے زبان میں

غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سویاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں

غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں

وے دن گئے کہ آتش غم دل میں تھی نہاں
سوزش رہے ہے اب تو ہر اک استخوان میں

دل نذر و دیدہ پیشکش اے باعث حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں

کھینچا نہ کر تو تیغ کہ اک دن نہیں ہیں ہم
ظالم قباحتیں ہیں بہت امتحان میں

پھاڑا ہزار جا سے گریبان صبر میرؔ
کیا کہہ گئی نسیم سحر گل کے کان میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse