نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
by میر تقی میر

نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا

داد دے ورنہ ابھی جان پہ کھیلوں ہوں میں
دل جلانا نہیں دیکھا کسی فریادی کا

تو نے تلوار رکھی سر رکھا میں بندہ ہوں
اپنی تسلیم کا بھی اور تری جلادی کا

شہر کی سی رہی رونق اسی کے جیتے جی
مر گیا قیس جو تھا خانہ خدا وادی کا

شیخ کیا صورتیں رہتی تھیں بھلا جب تھا دیر
رو بہ ویرانی ہو اس کعبے کی آبادی کا

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse