نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا (1938)
by محمد اقبال
296655نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا1938محمد اقبال

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صُبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ اُمّتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں مَیں، لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جُنوں کی تدبیریں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse