نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے
by میر تقی میر

نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے
ٹک گوش رکھیو ایدھر ساتھ اس کے کچھ خبر ہے

اے حب جاہ والو جو آج تاجور ہے
کل اس کو دیکھیو تم نے تاج ہے نہ سر ہے

اب کی ہوائے گل میں سیرابی ہے نہایت
جوے چمن پہ سبزہ مژگان چشم تر ہے

اے ہم صفیر بے گل کس کو دماغ نالہ
مدت ہوئی ہماری منقار زیر پر ہے

شمع اخیر شب ہوں سن سر گذشت میری
پھر صبح ہوتے تک تو قصہ ہی مختصر ہے

اب رحم پر اسی کے موقوف ہے کہ یاں تو
نے اشک میں سرایت نے آہ میں اثر ہے

تو ہی زمام اپنی ناکے تڑا کہ مجنوں
مدت سے نقش پا کے مانند راہ پر ہے

ہم مست عشق واعظ بے ہیچ بھی نہیں ہیں
غافل جو بے خبر ہیں کچھ ان کو بھی خبر ہے

اب پھر ہمارا اس کا محشر میں ماجرا ہے
دیکھیں تو اس جگہ کیا انصاف داد گر ہے

آفت رسیدہ ہم کیا سر کھینچیں اس چمن میں
جوں نخل خشک ہم کو نے سایہ نے ثمر ہے

کر میرؔ اس زمیں میں اور اک غزل تو موزوں
ہے حرف زن قلم بھی اب طبع بھی ادھر ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse