ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
by میر تقی میر

ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے

گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی لب و دہاں ہے
لیکن سخن کا تجھ سے غنچے کو منہ کہاں ہے

ہنگام جلوہ اس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا
چتون ہے دل کی آفت چشمک بلائے جاں ہے

پتھر سے توڑنے کے قابل ہے آرسی تو
پر کیا کریں کہ پیارے منہ تیرا درمیاں ہے

باغ و بہار ہے وہ میں کشت زعفراں ہوں
جو لطف اک ادھر ہے تو یاں بھی اک سماں ہے

ہر چند ضبط کریے چھپتا ہے عشق کوئی
گزرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے

اس فن میں کوئی بے تہہ کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے

عالم میں آب و گل کا ٹھہراؤ کس طرح ہو
گر خاک ہے اڑے ہے ور آب ہے رواں ہے

چرچا رہے گا اس کا تا حشر مے کشاں میں
خوں ریزی کی ہماری رنگین داستاں ہے

از خویش رفتہ اس بن رہتا ہے میرؔ اکثر
رہتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse