میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
by میر تقی میر

میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں

جلوہ ہے مجھی سے لب دریاے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں

پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایۂ رو زلف بتاں ہوں

دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعث آشفتگیٔ طبع جہال ہوں

تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبش لب کی
میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیر زباں ہوں

ہوں زرد غم تازہ نہالان چمن سے
اس باغ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں

رکھتی ہے مجھے خواہش دل بسکہ پریشاں
درپئے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں

اک وہم نہیں بیش مری ہستئ موہوم
اس پر بھی تری خاطر نازک پہ گراں ہوں

خوش باشی و تنزیہ و تقدس تھے مجھے میرؔ
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse