میرے سنگ مزار پر فرہاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرے سنگ مزار پر فرہاد
by میر تقی میر

میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دل ناشاد

موند آنکھیں سفر عدم کا کر
بس ہے دیکھا نہ عالم ایجاد

فکر تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد

سنتے ہو ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنوگے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی برباد

بھولا جائے ہے غم بتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد

تیرے قید قفس کا کیا شکوہ
نالے اپنے سے اپنے سے فریاد

ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں کہیں
اپنی قید حیات سے آزاد

ایسا وہ شوخ ہے کہ اٹھتے صبح
جانا سو جائے اس کی ہے معتاد

نہیں صورت پذیر نقش اس کا
یوں ہی تصدیق کھینچے ہے بہزاد

خوب ہے خاک سے بزرگوں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروت کہاں کی ہے اے میرؔ
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ارشاد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغ مراد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse