میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
by میر تقی میر

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی

ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی

مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی

بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی

کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے
وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی

اس کا وہ عجز تمہارا یہ غرور خوبی
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی

کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشک بہار
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی

سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی

مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی

میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمہاری تلوار
کیا عوض چاہ کا تھا خصمی جانی اس کی

آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے
دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی

اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse