مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
by میر تقی میر

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا

جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

اشک تر قطرۂ خوں لخت جگر پارۂ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہہ کر نکلا

کنج کاوی جو کی سینے کی غم ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse