موے سہتے سہتے جفا کاریاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موے سہتے سہتے جفا کاریاں
by میر تقی میر

موے سہتے سہتے جفا کاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں

ہماری تو گزری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا یہی زاریاں

فرشتہ جہاں کام کرتا نہ تھا
مری آہ نے برچھیاں ماریاں

گیا جان سے اک جہاں لے کے شوخ
نہ تجھ سے گئیں یہ دل آزاریاں

کہاں تک یہ تکلیف ما لا یطاق
ہوئیں مدتوں ناز برداریاں

خط و کاکل و زلف و انداز و ناز
ہوئیں دام رہ صد گرفتاریاں

کیا درد و غم نے مجھے ناامید
کہ مجنوں کو یہ ہی تھیں بیماریاں

تری آشنائی سے ہی حد ہوئی
بہت کی تھیں دنیا میں ہم یاریاں

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں
کھنچیں میرؔ تجھ سے ہی یہ خواریاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse