موہ میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موہ میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
by میر تقی میر

موہ میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

جنوں میں اب کے مجھے اپنے دل کا غم ہے پہ حیف
خبر لی جب کہ نہ جامے میں ایک تار رہا

بشر ہے وہ پہ کھلا جب سے اس کا دام زلف
سر رہ اس کے فرشتے ہی کا شکار رہا

کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
تمام عمر ہمیں اس کا انتظار رہا

شراب عیش میسر ہوئی جسے اک شب
پھر اس کو روز قیامت تلک خمار رہا

بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا

وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا
وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا

تمام عمر گئی اس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں
وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا

ستم میں غم میں سرانجام اس کا کیا کہیے
ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا

بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہہ نکلا
رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا

سو اس کو ہم سے فراموش کاریوں لے گئے
کہ اس سے قطرۂ خوں بھی نہ یادگار رہا

گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر
میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse