موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
by میر تقی میر

موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
یعنی سایۂ سر و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو

پیش سعایت کیا جائے ہے حق ہے میری طرف سو ہے
میں تو چپ بیٹھا ہوں یکسو گر کوئی تقریر کرو

کان لگا رہتا ہے غیر اس شوخ کماں ابرو کے بہت
اس تو گناہ عظیم پہ یارو ناک میں اس کی تیر کرو

پھیر دئیے ہیں دل لوگوں کے مالک نے کچھ میری طرف
تم بھی ٹک اے آہ و نالہ قلبوں میں تاثیر کرو

آگے ہی آزردہ ہیں ہم دل ہیں شکستہ ہمارے سب
حرف رنجش بیچ میں لا کر اور نہ اب دلگیر کرو

شعر کیے موزوں تو ایسے جن سے خوش ہیں صاحب دل
روویں کڑھیں جو یاد کریں اب ایسا تم کچھ میرؔ کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse