مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
by میر تقی میر

مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لا مکاں کو دل شب کی زاریاں

چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دستکاریاں

سو بار ہم نے گل کے گئے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آب چشم سے راتوں کو کیاریاں

کشتے کی اس کے خاک بھرے جسم زار پر
خالی نہیں ہیں لطف سے لوہو کی دھاریاں

تربت سے عاشقوں کے نہ اٹھا کبھو غبار
جی سے گئے ولے نہ گئیں راز داریاں

اب کس کس اپنی خواہش مردہ کو روئیے
تھیں ہم کو اس سے سینکڑوں امیدواریاں

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

کیا جانتے تھے ایسے دن آ جائیں گے شتاب
روتے گذرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں

گل نے ہزار رنگ سخن سر کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں

جاؤ گے بھول عہد کو فرہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں

بچ جاتا ایک رات جو کٹ جاتی اور میرؔ
کاٹیں تھیں کوہ کن نے بہت راتیں بھاریاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse