مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
by میر تقی میر

مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں

گل پھول سے کب اس بن لگتی ہیں اپنی آنکھیں
لائی بہار ہم کو زورآوری چمن میں

اب لعل نو خط اس کے کم بخشتے ہیں فرحت
قوت کہاں رہے ہے یاقوتی کہن میں

یوسف عزیز دلا جا مصر میں ہوا تھا
پاکیزہ گوہروں کی عزت نہیں وطن میں

دیر و حرم سے تو تو ٹک گرم ناز نکلا
ہنگامہ ہو رہا ہے اب شیخ و برہمن میں

آ جاتے شہر میں تو جیسے کہ آندھی آئی
کیا وحشتیں کیا ہیں ہم نے دوان پن میں

ہیں گھاؤ دل پر اپنے تیغ زباں سے سب کی
تب درد ہے ہمارے اے میرؔ ہر سخن میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse