مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
by میر تقی میر

مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا

پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتش نفسی میری
میں ضبط نہ کرتا تو سب شہر یہ جل جاتا

میں گریۂ خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ
اک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا

بن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو
پرسش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا

استادہ جہاں میں تھا میدان محبت میں
واں رستم اگر آتا تو دیکھ کے ٹل جاتا

وہ سیر کا وادی کے مائل نہ ہوا ورنہ
آنکھوں کو غزالوں کی پاؤں تلے مل جاتا

بے تاب و تواں یوں میں کاہے کو تلف ہوتا
یاقوتی ترے لب کی ملتی تو سنبھل جاتا

اس سیم بدن کو تھی کب تاب تعب اتنی
وہ چاندنی میں شب کی ہوتا تو پگھل جاتا

مارا گیا تب گزرا بوسے سے ترے لب کے
کیا میرؔ بھی لڑکا تھا باتوں میں بہل جاتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse