مخمس در مدح حضرت علیؓ (III)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مخمس در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر

یاعلی شاہ اولیا ہے تو
محرم راز اِنّما ہے تو
زور بازوے مصطفےٰؐ ہے تو
مظہر قدرت خدا ہے تو
علم کس کو ہے یہ کہ کیا ہے تو

گرچہ آخر کیا ہے تونے ظہور
پر ترے قرب کا ہے رتبہ دور
ہے تو اللہ کا مجسم نور
جانے ہیں جن کو کچھ ہے عقل و شعور
اگلے پچھلوں کا پیشوا ہے تو

تیرے پردے میں حق ہوا موجود
تجھ سے کیا کیا عجب ہوئے مشہود
جانتے ہیں تجھی کو سب معبود
تھا زمین و زماں سے تو مقصود
آرزو تو ہے مدعا ہے تو

اس زمانے میں آہ دکھ ہے عظیم
ہے مری جان پر عذالب الیم
مستحق کرم ہوں میں تو کریم
ملتفت ہو بہت ہے حال سقیم
میرے ہر درد کی دوا ہے تو

فرصت وقت جوں حباب ہے کم
حال مانند موج ہے درہم
ڈوب جاتا ہے جی مرا ہردم
جوش زن گوکہ ہو محیط غم
غم نہیں کچھ جو آشنا ہے تو

تجھ سے ظاہر ہوئے چھپے سب بھید
جلوہ تیرے ظہور کا جاوید
ذرے ذرے کو تجھ سے ہے امید
دن ہے طالع ہوا جہاں خورشید
سب پہ روشن ہے کیا چھپا ہے تو

میرؔ کو کب تلک یہ رنج و غم
اس بھی اندوہ گیں کو کر خرم
منبسط ہے ترا سحاب کرم
یعنی سائے میں ہے ترے عالم
سارے عالم میں چھا رہا ہے تو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse