محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال
by میر تقی میر

محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال
قیامت رہیں گے دلوں پر ملال
کیا تھا جو ماتم بہت پر کے سال
سو آئے نہیں اب تلک جی بحال

بہت چھاتی کوٹی تھی لے لے کے سنگ
لہو رو کے لائے تھے چہروں پہ رنگ
جو ویسا ہی اب کے بھی غم کا ہے ڈھنگ
تو ہو جائے گی زندگانی وبال

الف داغ کھینچے کہیں جائیں گے
کہیں نعل سینوں پہ جڑوائیں گے
بہت لوہو روتے ہوئے آئیں گے
بہت سینہ کوبی سے ہوں گے نڈھال

نہوں سے بہت چہرے ہوں گے فگار
پھریں گے بہت روتے نالاں و زار
بہت اپنا شیون کریں گے شعار
اٹھیں گے سروں پر بہت خاک ڈال

عزیزوں کے احوال ہوں گے بتر
برہنہ سر آویں گے اکثر نظر
سیہ ہوں گے ہر کو و برزن میں گھر
پریشاں کریں گی زناں سر کے بال

جواں اپنے جامے کریں گے سیاہ
پھریں گے گریباں پھٹے دل تباہ
گذارے کی رستوں میں ہوگی نہ راہ
رکھیں گے جو روضے گھروں سے نکال

بجاویں گے جھانجھیں اڑاویں گے خاک
کریں گے بہت نالۂ دردناک
لہو ہوں گے دل سب جگر ہوں گے چاک
رہیں گے نہوں کے نچے چہرے لال

زناں موپریشاں دوانوں کے رنگ
لیے سینہ کوبی کو ہاتھوں میں سنگ
کشادہ رخ و زندگانی سے تنگ
عجب خستہ حالی عجائب مقال

زباں پر حسنؓ زیر لب واحسینؓ
کہے ایک یہ ہوگیا کیا حسینؓ
اٹھے گی کوئی کہہ کے جو یاحسینؓ
تو سامع سروں کے تئیں لیں گے ڈال

عجب حال ہوگا جو لڑکے تمام
پکاریں گے ہے دوست ہے دوست شام
کہے گا کوئی غم سے گر یا امام
تو ہوگا بکا مسجدوں میں کمال

دہل کی صدا چکچکی کا وہ شور
قیامت سی رکھیں گے ہر چار اور
جواں چھاتیاں اپنی کوٹیں گے زور
منھ اپنے کو پیٹیں گے پیرانہ سال

بہم لے کے آئیں گے ماتم کے تیں
سیہ خانہ کر دیں گے عالم کے تیں
بیاں کرکے روئیں گے اس غم کے تیں
جو دل کو کلیجے کو لے ہے نکال

کریں گے سیہ خانہ اہل عزا
بناویں گے شہروں میں دشت بلا
جہاں ایک ہووے گا ماتم سرا
گریں گے جو آنسو تو خوں کی مثال

گہ ماتم آوے گی نعش اک بنی
سو ہووے گی تیروں کے مارے چھنی
لگے گی غضب ہونے سینہ زنی
جیوں میں نہ مرنے کا ہوگا خیال

پڑھیں گے کوئی مرثیہ میرؔ کا
دلوں میں کرے کام جو تیر کا
پھٹے گا جگر کودک و پیر کا
نپٹ خونچکاں ہوگی وہ قیل و قال

ستم شامیوں کے کریں گے بیاں
کہ ان میں پھنسا تھا امام زماں
ہوا ہائے کیا ظلم اس پر عیاں
گیا تشنہ لب جی سے وہ خوش خصال

جواں اک پسر اس کا مارا گیا
رفیقوں کا سب زور و یارا گیا
کھپی جان گھربار سارا گیا
سزا اس جفا کے محمدؐ کی آل

سیہ خاک سے آپ یکساں ہوا
پس از قتل گھر بار ویراں ہوا
وہ جمع معزز پریشاں ہوا
رہا عابدیں سو گرفتارحال

لگی آگ خیمے جلے سربسر
ہوئے لوگ ناموس کے دربدر
نہ وارث نہ صاحب نہ جاگہ نہ گھر
ملا خاک میں جاہ و مال و منال

اسیر بلا مردمان حرم
پدر مردہ سجاد ننگے قدم
نہ پہنچی مرض میں دوا بھی بہم
نہ اپنا کوئی جو کرے مشت مال

چلا تپ میں آیا کھنچا ناتواں
ہوا ساتھ اہل حرم کے رواں
پھر اس پر تقید چلا چل دواں
قدم گرچہ رکھتا تھا اپنا سنبھال

ولے ضعف سے تن سنبھلتا نہ تھا
تمنا تھی پر جی نکلتا نہ تھا
کھڑا کیونکے ہو بس تو چلتا نہ تھا
زمانے کی ٹیڑھی نہایت ہے چال

بندھے ہاتھ جن میں شتر کی زمام
نظر سوے اہل حرم گام گام
گرا ناتوانی سے جو وہ امام
پریشاں ہوا اس جماعت کا حال

اٹھا بی بیوں میں سے یک بار شور
کہ ٹک دیکھ عابد ہماری بھی اور
نہ وارث ہے تجھ بن نہ کچھ ہم میں زور
ستم ہے قضا گر تجھے دیوے ٹال

ہوا کشتگاں پر جو ہو کر گذار
قیامت ہوئی قیدیوں سے دوچار
لگی کہنے ہر ایک رو رو کے زار
کہ اے شہ ہوا کیا وہ جاہ و جلال

ترے ساتھ کل تک تو اسباب تھا
ترا در ادب کرنے کا باب تھا
نہ یہ خاک یوں بستر خواب تھا
نہ ہوتی تھی حرف و سخن کی مجال

سو ہنگامہ ہے تیرے پیکر پر آج
بلا شور ہے کچھ کٹے سر پر آج
قیامت ہوئی ہے ادھر گھر پر آج
کھنچے آئے ہیں ہم کھلے سر کے بال

تری پاسبانی تھی فخرملک
تو خورشید تھا تیری جا تھی فلک
تو پہنچا ہے کیوں خاک تیرہ تلک
ترے سر پہ آیا ہے کیوں یہ زوال

عزیز آہ تیرے جو تھے کٹ گئے
مچی غارت ایسی کہ ہم لٹ گئے
ردائیں گئیں رک گئے گھٹ گئے
یہ اب حال ہے دیکھیں کیا ہو مآل

ترے باغ میں کیا خزاں آگئی
جہاں تک تھی سرسبزی سو کھا گئی
گل و برگ جنگل میں پھیلا گئی
شجر کٹ گئے چھٹ گئے سب نہال

برادر پسر رنج سے لٹ گئے
رفیق اور بازو ترے کٹ گئے
جگر درد و غم کھینچتے پھٹ گئے
بیاں کریے کس کس کا حسن و جمال

نظر کر ہمارے بھی آشفتہ مو
تنک دیکھ عابد کا طوق گلو
کسے ایسے جینے کی تھی آرزو
ترے ہجر میں کاش ہوتے وصال

ہمیں شام کا اب سفر پیش ہے
تری بیکسی سے جگر ریش ہے
نہ بیٹا ہے بیٹھا نہ اب خویش ہے
اٹھانا ترا خاک سے ہے محال

نہ احوال کا کوئی عالم ہے یاں
نہ داور نہ یاور نہ حاکم ہے یاں
نہ تو ہے نہ اکبر نہ قاسم ہے یاں
کریں داد دل کا سو کس سے سوال

جگرچاک دل خستہ روتے اسیر
یہ کہہ کر گئے سب بہ حال فقیر
نہ لکھ بیکسی ان کی اب آگے میرؔ
ہنوز ان پہ روتے ہیں دشت و جبال

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse