مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں
by میر تقی میر

مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں
تمہارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں

سرشک سرخ کو جاتا ہوں جو پیے ہر دم
لہو کا پیاسا علی الاتصال اپنا ہوں

اگرچہ نشہ ہوں سب میں خم جہاں میں لیک
برنگ مے عرق انفعال اپنا ہوں

مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک
میں نقش پا کی طرح پائمال اپنا ہوں

ہوئی ہے زندگی دشوار مشکل آساں کر
پھروں چلوں تو ہوں پر میں وبال اپنا ہوں

ترا ہے وہم کہ یہ ناتواں ہے جامے میں
وگرنہ میں نہیں اب اک خیال اپنا ہوں

بلا ہوئی ہے مری گو کا طبع روشن میرؔ
ہوں آفتاب ولیکن زوال اپنا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse