لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
by میر تقی میر

لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید

سب پریشاں دلی میں شب گزری
بال اس کے بکھر گئے شاید

کچھ خبر ہوتی تو نہ ہوتی خبر
صوفیاں بے خبر گئے شاید

ہیں مکان و سرا و جا خالی
یار سب کوچ کر گئے شاید

آنکھ آئینہ رو چھپاتے ہیں
دل کو لے کر مکر گئے شاید

لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا
زخم اب دل کے بھر گئے شاید

اب کہیں جنگلوں میں ملتے نہیں
حضرت خضر مر گئے شاید

بے کلی بھی قفس میں ہے دشوار
کام سے بال و پر گئے شاید

شور بازار سے نہیں اٹھتا
رات کو میرؔ گھر گئے شاید

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse