لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا
by میر تقی میر

لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا
اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا

دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا
ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا

اس قید جیب سے میں چھوٹا جنوں کی دولت
ورنہ گلا یہ میرا جوں طوق میں پھنسا تھا

مشت نمک کی خاطر اس واسطے ہوں حیراں
کل زخم دل نہایت دل کو مرے لگا تھا

اے گرد باد مت دے ہر آن عرض وحشت
میں بھی کسو زمانے اس کام میں بلا تھا

بن کچھ کہے سنا ہے عالم سے میں نے کیا کیا
پر تو نے یوں نہ جانا اے بے وفا کہ کیا تھا

روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو
میں سوز دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا

شب زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو
ناسور تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا

سر مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں
سینے پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا

سو بخت تیرہ سے ہوں پامالیٔ صبا میں
اس دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا

یہ سر گذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور اس کا اس کے کوچے میں جا بجا تھا

سن کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ
بے درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا

کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں
احوال تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا

آنکھیں مری کھلیں جب جی میرؔ کا گیا تب
دیکھے سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse