لب ترے لعل ناب ہیں دونوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
by میر تقی میر

لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں

رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں

تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں

کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں

سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں

پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں

ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں

آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse