قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
by میر تقی میر

قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے

وہ کالا چور ہے خال رخ یار
کہ سو آنکھوں میں دل ہو تو چرا لے

نہیں اٹھتا دل محزوں کا ماتم
خدا ہی اس مصیبت سے نکالے

کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے
کبھو تو پاس ہم کو بھی بلا لے

دلا بازی نہ کر ان گیسوؤں سے
نہیں آساں کھلانے سانپ کالے

تپش نے دل جگر کی مار ڈالا
بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے

نہ مہکے بوئے گل اے کاش یک چند
ابھی زخم جگر سارے ہیں آلے

کسے قید قفس میں یاد گل کی
پڑے ہیں اب تو جینے ہی کے لالے

ستایا میرؔ غم کش کو کنھوں نے
کہ پھر اب عرش تک جاتے ہیں نالے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse