قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے
by میر تقی میر

قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے
ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے

اٹھائیں تیرے لیے بد زبانیاں ان کی
جنہوں کی ہم کو خوشامد سے ننگ تھا آگے

ہماری آہوں سے سینے پہ ہو گیا بازار
ہر ایک زخم کا کوچہ جو تنگ تھا آگے

رہا تھا شمع سے مجلس میں دوش کتنا فرق
کہ جل بجھے تھے یہ ہم پر پتنگ تھا آگے

کیا خراب تغافل نے اس کے ورنہ میرؔ
ہر ایک بات پہ دشنام و سنگ تھا آگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse