فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
by میر تقی میر

فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی

کہہ حدیث آنے کی اس کے جو کیا شادی مرگ
نامہ بر کیا چلی تھی ہم کو خبر کرنے کی

کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع
کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی

اب کے برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال
میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی

پھول کچھ لیتے نہ نکلے تھے دل صد پارہ
طرز سیکھی ہے مرے ٹکڑے جگر کرنے کی

ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو
دھن ہے نالے کو کسو دل میں اثر کرنے کی

عشق میں تیرے گزرتی نہیں بن سر پٹکے
صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی

کاروانی ہے جہاں عمر عزیز اپنی میرؔ
رہ ہے درپیش سدا اس کو سفر کرنے کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse