فلک نے ہونا اکبر کا نہ چاہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فلک نے ہونا اکبر کا نہ چاہا
by میر تقی میر

فلک نے ہونا اکبر کا نہ چاہا
گیا قاسم جسے سب نے سراہا
کوئی دن شہ نے جوں توں کر نباہا
عجائب سانحہ گذرا الٰہا
فآہا ثم آہا ثم آہا

موئے یار و برادر اس کے پیارے
سو ہوکر تشنہ لب دریا کنارے
تماشائی تھے لوگ امت کے سارے
کہیں سو کیا کہیں ہم غم کے مارے
فآہا ثم آہا ثم آہا

کہے وہ اے کماں داراں سواراں
پیاسے مارے میرے دوستداراں
جواب اس کا یہ تھا منصف ہو یاراں
نہ دیجے پانی کریے تیرباراں
فآہا ثم آہا ثم آہا

عزیز ایسا کہ جو مہمان ہووے
تصدق اس پہ کی گر جان ہووے
نہ اس کے سر پہ یہ طوفان ہووے
کہ قطرہ آب کو حیران ہووے
فآہا ثم آہا ثم آہا

نپٹ اوقات کے تیں تنگ آیا
بہت کچھ دل کا دل ہی میں سمایا
سخن ہرگز زباں اوپر نہ لایا
کہا سو یہ کہ کیا کہیے خدایا
فآہا ثم آہا ثم آہا

بڑے بیٹے سے بیٹھا ہاتھ دھو کر
رہا چھوٹے کو چپکے چپکے رو کر
لگی چھاتی میں غم کی زور ٹھوکر
کہے کیا غیر ازیں دل تنگ ہو کر
فآہا ثم آہا ثم آہا

برابر خاک سے تاج شہی تھا
جو کچھ ٹھانا تھا جی میں سو سہی تھا
ثبات پا وہیں سر میں وہی تھا
اگر لب پر کچھ آتا تھا یہی تھا
فآہا ثم آہا ثم آہا

کس و کو یک طرف سب اس کے بیکس
اکیلا خود ہزاروں میں گیا پھنس
رہا نومید ہو جب وہ خدارس
کہ یعنی ہوچکے اپنے تو اب بس
فآہا ثم آہا ثم آہا

پھر اس کو پڑ گئی جی ہی کی آکر
کسو جانب نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر
کوئی ہوتا تو کچھ کہتا بلاکر
سو نے خویش و پسر نے یار و یاور
فآہا ثم آہا ثم آہا

ستم کیسا اٹھایا گھر لٹایا
سبھوں کی مرگ کے دیکھے قضایا
رہا کھویا گیا سا سر کٹایا
کہے غم جس سے ٹک سو وہ نہ پایا
فآہا ثم آہا ثم آہا

رضاے حق کا مرتے تک تھا جویا
لگی چپ ایسی تھا تصویر گویا
بھر آیا جی بہت لیکن نہ رویا
غرض بے آبی نے سب گھر ڈبویا
فآہا ثم آہا ثم آہا

نہ پوچھو جس دم اس کا خوں بہا تھا
ستم خنجر کا گردن نے سہا تھا
طرف قبلے کے منھ کر جھک رہا تھا
کہا سو یہ دم آخر کہا تھا
فآہا ثم آہا ثم آہا

رہا عابد سو اس پر یہ مصیبت
بدن میں زور تپ سے کچھ نہ طاقت
نگہ میں ناامیدی تنگ حالت
لبوں پر صدہزار افسوس و حسرت
فآہا ثم آہا ثم آہا

کہو کس کس کا اس کے نام لیجے
موئے سب بھانجے بھائی بھتیجے
رہا تھا یہ سو اس کو بندی کیجے
بندھے وے ہاتھ جن پر بوسہ دیجے
فآہا ثم آہا ثم آہا

مہار اونٹوں کی اس کے ہاتھ میں تھی
گلے میں طوق جس سے تھی غشی سی
قدم رکھتا تو جاتا تھا چلا جی
جگر اس کا ہی تھا چھاتی اسی کی
فآہا ثم آہا ثم آہا

اسیر و خستہ دل بے زور و زر تھا
کٹا سر باپ کا پیش نظر تھا
نہ یاور تھا نہ داور تھا نہ گھر تھا
قیامت تھی غضب تھا شور و شر تھا
فآہا ثم آہا ثم آہا

کھنچا آیا پدرمردہ ستم کش
ضعیف و ناتواں صدگونہ غم کش
یتیم و بیکس و حیراں الم کش
یہی کہتا تھا ہوتا بھی جو دم کش
فآہا ثم آہا ثم آہا

ادھر کلثوم کا نالیدن زار
ادھر زینب کی غم سے چشم خونبار
سکینہ باپ کو روتی تھی ہر بار
کرے کیا لاعلاجی اور بیمار
فآہا ثم آہا ثم آہا

ہوا لاشے پہ شہ کے جو گذارا
تن بے سر زمیں پر کر نظارہ
کرے کیا قافلہ ناچار سارا
کہا سب نے نہان و آشکارا
فآہا ثم آہا ثم آہا

نہ لکھ بس میرؔ بے طوری ایام
سر اس صبح سعادت کا چلا شام
گیا وہ جمع بھی ناچار ناکام
نظر کر کہتے تھے سو بار ہر گام
فآہا ثم آہا ثم آہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse