فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گل
by میر تقی میر

فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گل
چھانی چمن کی خاک نہ تھا نقش پائے گل

اللہ رے عندلیب کی آواز دل خراش
جی ہی نکل گیا جو کہا ان نے ہائے گل

مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ
یہ چشمک پیالہ ہے ساقی ہوائے گل

یہ دیکھ سینہ داغ سے رشک چمن ہے یاں
بلبل ستم ہوا نہ جو تو نے بھی کھائے گل

بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے
اے گل فروش کریو سمجھ کر بہائے گل

نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رو کی یہ
قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل

بارے سرشک سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پر اپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گل

آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی
لے اے زباں دراز تو سب کچھ سوائے گل

گلچیں سمجھ کے چنیو کہ گلشن میں میرؔ کے
لخت جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse