غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے
by میر تقی میر

غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے
اس کتے نے کر کے دلیری صید حرم کو مارا ہے

باغ کو تجھ بن اپنے بھائیں آتش دی ہے بہاراں نے
ہر غنچہ اخگر ہے ہم کو ہر گل ایک انگارا ہے

جب تجھ بن لگتا ہے تڑپنے جائے ہے نکلا ہاتھوں سے
ہے جو گرہ سینے میں اس کو دل کہیے یا پارہ ہے

راہ حدیث جو ٹک بھی نکلے کون سکھائے ہم کو پھر
روئے سخن پر کس کو دے وہ شوخ بڑا عیارہ ہے

کام اس کا ہے خوں افشانی ہر دم تیری فرقت میں
چشم کو میری آ کر دیکھ اب لوہو کا فوارہ ہے

بال کھلے وہ شب کو شاید بستر ناز پہ سوتا تھا
آئی نسیم صبح جو ادھر پھیلا عنبر سارا ہے

کس دن دامن کھینچ کے ان نے یار سے اپنا کام لیا
مدت گزری دیکھتے ہم کو میرؔ بھی اک ناکارہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse