غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
by میر تقی میر

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا

جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا

زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کام دل برہم رہا

اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آب حیواں سم رہا

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse