غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
by میر تقی میر

غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا

رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا

نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انہیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا

مرتا ہوں جان دیں ہیں وطن داریوں پہ لوگ
اور سنتے جاتے ہیں کہ ہر اک نے سفر کیا

کیا جانوں بزم عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبت شراب سے آگے سفر کیا

جس دم کہ تیغ عشق کھنچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا

دل زخمی ہو کے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا

ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مست ناز
ذوق خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا

وہ دشت خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا

کچھ کم نہیں ہیں شعبدہ بازوں سے میگسار
دارو پلا کے شیخ کو آدم سے خر کیا

ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گرد باد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا

لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ
یک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا

بے شرم محض ہے وہ گنہ گار جن نے میرؔ
ابر کرم کے سامنے داماں تر کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse