غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
by میر تقی میر

غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا

جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا

ہنوز آوارۂ لیلیٰ ہے جان رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا

حریف بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا

نگاہ یاس بھی اس صید افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا

خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا

نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا

قدم ٹک دیکھ کر رکھ میرؔ سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحرائے محبت کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse