غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا (1914)
by پروین ام مشتاق
308323غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا1914پروین ام مشتاق

غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا
یہ پیش خیمہ ہے ظالم تری تباہی کا

خدنگ آہ کو روکے رہا ہوں فرقت میں
خیال ہے مجھے افلاک کی تباہی کا

امید کیسے ہو محشر میں سرخ روئی کی
ہمیشہ کام کیا ہو جو رو سیاہی کا

سلام تک نہیں لیتے کلام تو کیسا
فقیری میں بھی تبختر ہے بادشاہی کا

شکست و فتح کا ذمہ نہیں دل ناداں
لڑے ہزار میں یہ کام ہے سپاہی کا

خضاب کرتے ہیں دنیا سے جب گئے گزرے
شگون کرتے ہیں پیری میں رو سیاہی کا

نہ آسماں کی عنایت نہ مہرباں وہ شوخ
نہ پوچھو حال غریبوں کی بے پناہی کا

سفید بالوں پہ کس واسطے خضاب لگائیں
گیا زمانہ جوانی میں رو سیاہی کا

خطائیں ہو گئیں معدوم حج سے اے پرویںؔ
گواہ خود ہے خدا میری بے گناہی کا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8_%D8%A2%D8%AF%D9%85%DB%8C_%DA%A9%D9%88_%D9%B9%DA%BE%D8%A7%D9%B9_%D9%BE%D8%A7%D8%AF%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C_%DA%A9%D8%A7