عمر گزری ان بتوں کے وصل کی تدبیر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عمر گزری ان بتوں کے وصل کی تدبیر میں (1927)
by عاشق حسین بزم آفندی
324763عمر گزری ان بتوں کے وصل کی تدبیر میں1927عاشق حسین بزم آفندی

عمر گزری ان بتوں کے وصل کی تدبیر میں
کیا خبر مجھ کو یہ پتھر تھے مری تقدیر میں

پاک کر کے اس کو لا قاتل لہو کھاتا ہے جوش
غیر کے خوں کے ہیں دھبے دامن شمشیر میں

بلکی لیتا ہے مقدر مجھ سے کیوں ہر مرتبہ
بل ہے ان کی زلف کا کیا گیسوئے تقدیر میں

ہجر زلف یار میں اس درجہ ہوں زار و نحیف
ہے فراغت سے گزر اب خانۂ زنجیر میں

آج تک خارش نہیں زخم جگر کی کم ہوئی
کس قیامت کا مزا تھا ناخن شمشیر میں

کس طرح بے قتل کے آئے مجھے آرام و چین
شکل مقصد کی تو ہے آئینہ شمشیر میں

قلب میں پیوست پیکاں بھی اسی صورت سے ہو
جیسے بیٹھی ہے سری اے ترک تیرے تیر میں

جن کے دل فولاد ہیں غم کا اثر ان پہ ہو کیا
اشک کب دیکھے کسی نے دیدۂ زنجیر میں

اس ضعیفی میں خطا کرتا نہیں تیر ستم
ہیں ابھی کس بل جوانوں کے سے چرخ پیر میں

واقعی دل کی خطا ہے عاشق مژگاں ہوا
اس کو کچھ تنبیہ کر دیجے زبان تیر میں

مہر و الفت کا محل اس بت کے رہنے کا مقام
منزل دل بھی ہے کیا منزل مری تعمیر میں

اشک خوں ناشادیٔ عشاق پر روئی ہے یہ
خون کے دھبے نہیں ہیں یار کی شمشیر میں

کشت وحشت پر اگر برسائے وہ آب کرم
کوپلیں پھوٹیں ابھی ہر دانۂ زنجیر میں

ایک دن کے درد فرقت نے یہ نقشہ کر دیا
ہو گئی بیگانگی مجھ میں مری تصویر میں

دیکھیے قسمت کی خوبی کچھ پڑھا جاتا نہیں
اس نے نامہ بھی جو لکھا تو خط تقدیر میں

آرزو ہے بزمؔ کی خالق وہ دن لائے کہیں
مرثیہ جا کر پڑھوں میں روضۂ شبیر میں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%B9%D9%85%D8%B1_%DA%AF%D8%B2%D8%B1%DB%8C_%D8%A7%D9%86_%D8%A8%D8%AA%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%92_%D9%88%D8%B5%D9%84_%DA%A9%DB%8C_%D8%AA%D8%AF%D8%A8%DB%8C%D8%B1_%D9%85%DB%8C%DA%BA