عمر بھر ہم رہے شرابی سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
by میر تقی میر

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دل پر خوں کی اک گلابی سے

جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse