عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
by میر تقی میر

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا

کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا
خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا

آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل
آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا

ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے
اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا

گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سر دست اکثر ہیں
لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا

لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے
اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا

نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا
شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse