عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
by میر تقی میر

عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
آخر اب دوری میں جی جاتا رہا

مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں
چہرئی چہرہ ہی وہ بھاتا رہا

دل ہوا کب عشق کی رہ کا دلیل
میں تو خود گم ہی اسے پاتا رہا

منہ دکھاتا برسوں وہ خوش رو نہیں
چاہ کا یوں کب تلک ناتا رہا

کچھ نہ میں سمجھا جنون و عشق میں
دیر ناصح مجھ کو سمجھاتا رہا

داغ تھا جو سر پہ میرے شمع ساں
پاؤں تک مجھ کو وہی کھاتا رہا

کیسے کیسے رک گئے ہیں میرؔ ہم
مدتوں منہ تک جگر آتا رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse