عام حکم شراب کرتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عام حکم شراب کرتا ہوں
by میر تقی میر

عام حکم شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں

ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو
تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں

بحث کرتا ہوں ہو کے ابجد خواں
کس قدر بے حساب کرتا ہوں

کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث
تشنگی پر عتاب کرتا ہوں

سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق
اب تئیں آب آب کرتا ہوں

جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے
جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse