طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
by میر تقی میر

طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے

جیب اور آستیں سے رونے کا کام گزرا
سارا نچوڑ اب تو دامن پر آ رہا ہے

اب چیت گر نہیں کچھ تازہ ہوا ہوں بیکل
آیا ہوں جب بہ خود میں جی اس میں جا رہا ہے

کاہے کا پاس اب تو رسوائی دور پہنچی
راز محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے

گرد رہ اس کی یا رب کس اور سے اٹھے گی
سو سو غزال ہر سو آنکھیں لگا رہا ہے

بندے تو طرحدار وہیں طرح کش تمہارے
پھر چاہتے ہو کیا تم اب اک خدا رہا ہے

دیکھ اس دہن کو ہر دم اے آرسی کہ یوں ہی
خوبی کا در کسو کے منہ پر بھی وا رہا ہے

وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب
کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا ہے

اتنا خزاں کرے ہے کب زرد رنگ پر یاں
تو بھی کسو نگہ سے اے گل جدا رہا ہے

رہتے ہیں داغ اکثر نان و نمک کی خاطر
جینے کا اس سمیں میں اب کیا مزہ رہا ہے

اب چاہتا نہیں ہے بوسہ جو تیرے لب سے
جینے سے میرؔ شاید کچھ دل اٹھا رہا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse