شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو
by میر تقی میر

شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو
جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو

فرش مستاں کرو سجادۂ بے تہ کے تئیں
مے کی تعظیم کرو شیشے کا اکرام کرو

دامن پاک کو آلودہ رکھو بادے سے
آپ کو مغبچوں کے قابل دشنام کرو

نیک نامی و تقاوت کو دعا جلد کہو
دین و دل پیش کش سادۂ خود کام کرو

ننگ و ناموس سے اب گزرو جوانوں کی طرح
پر فشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو

خوب اگر جرعہ مے نوش نہیں کر سکتے
خاطر جمع مے آشام سے یہ کام کرو

اٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردن مینائے شراب
خدمت بادہ گساراں ہی سرانجام کرو

مطرب آ کر جو کرے چنگ نوازی تو تم
پیرہن مستوں کی تقلید سے انعام کرو

خنکی اتنی بھی تو لازم نہیں اس موسم میں
پاس جوش گل و دل گرمی ایام کرو

سایۂ گل میں لب جو پہ گلابی رکھو
ہاتھ میں جام کو لو آپ کو بدنام کرو

آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں
ایک تو صبح گلستاں میں بھی شام کرو

رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی
میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse