شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
by میر تقی میر

شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
دوری رہ ہے راہ بر نزدیک

آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک

دور والوں کو بھی نہ پہنچے ہم
یہی نہ تم سے ہیں مگر نزدیک

ڈوبیں دریا و کوہ و شہر و دشت
تجھ سے سب کچھ ہے چشم تر نزدیک

حرف دوری ہے گرچہ انشا لیک
دیجو خط جا کے نامہ بر نزدیک

دور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیشتر نزدیک

خبر آتی ہے سو بھی دور سے یاں
آؤ یک بار بے خبر نزدیک

توشۂ آخرت کا فکر رہے
جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک

دور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک

مر بھی رہ میرؔ شب بہت رویا
ہے مری جان اب سحر نزدیک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse