شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
by میر تقی میر

شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت

بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش
درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت

وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار
دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت

وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا
ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت

میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے
جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse