شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا  (1900) 
by حبیب موسوی

شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا
وہ پری وش کیا نہ تھا گویا کہ جو کچھ تھا نہ تھا

سوز دل سے لب یہ ہر دم نالہ بیتابانہ تھا
ہجر ساقی میں کسی پہلو قرار اصلا نہ تھا

جلوہ گر دل میں خیال عارض جانانہ تھا
گھر کی زینت تھی کہ زینت بخش صاحب خانہ تھا

کیا کروں اب مبتلا ہوں آپ اپنے حال میں
دی تھی نعمت اس نے جب لب پر مرے شکرانہ تھا

شہرۂ آفاق ہوتی میری ازخود رفتگی
خیریت گزری کہ آنکھوں سے تجھے دیکھا نہ تھا

فصل گل میں چھوڑتا مے دیکھ کر ماہ صیام
کچھ جنوں مجھ کو نہ تھا وحشت نہ تھی سودا نہ تھا

کیا کہوں ڈر یہ ہے وہ لیلیٰ ادا رسوا نہ ہو
ورنہ مجنوں سے بھی کچھ بڑھ کر میرا افسانہ نہ تھا

گر نزاکت میں نہ ہوتا مثل تار عنکبوت
خوب الفت سے زمانہ میں کوئی رشتہ نہ تھا

یوں ضعیفی آ گئی گویا ازل سے تھے ضعیف
اور شباب ایسا گیا جیسے کبھی آیا نہ تھا

ہے یقیں عاشق تمہارا مر گیا ہو لو خبر
میں نے کل دیکھا تھا جا کر حال کچھ اچھا نہ تھا

نیم باز آنکھیں تمہارا نام تھا ورد زباں
زخم دل پر ہاتھ تھا لب پر مگر شکوہ نہ تھا

بخت کی برگشتگی گزری ہے حد سے اے حبیبؔ
دیکھتے ہیں ان کے تلوے جن کا منہ دیکھا نہ تھا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse