شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
by میر تقی میر

شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے

سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے

اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گرد باد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے

بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے

بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے

اک دم میں تو نے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے

سودا ہو تب ہو میرؔ کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse