شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
by میر تقی میر

شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط

شوق سے بات بڑھ گئی تھی بہت
دفتر اس کو لکھیں ہیں کیا ہے خط

نامہ کب یار نے پڑھا سارا
نہ کہا یہ بھی آشنا ہے خط

ساتھ ہم بھی گئے ہیں دور تلک
جب ادھر کے تئیں چلا ہے خط

کچھ خلل راہ میں ہوا اے میرؔ
نامہ بر کب سے لے گیا ہے خط

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse