سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
by میر تقی میر

سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
تس پہ یہ جان بہ لب آمدہ بھی محزوں ہے

اس سے آنکھوں کو ملا جی میں رہے کیوں کر تاب
چشم اعجاز مژہ سحر نگہ افسوں ہے

آہ یہ رسم وفا ہووے بر افتاد کہیں
اس ستم پر بھی مرا دل اسی کا ممنوں ہے

کبھو اس دشت سے اٹھتا ہے جو ایک ابر تنک
گرد نمناک پریشاں شدۂ مجنوں ہے

کیونکے بے بادہ لب جو پہ چمن میں رہیے
عکس گل آب میں تکلیف مئے گلگوں ہے

پار بھی ہو نہ کلیجے کے تو پھر کیا بلبل
مصرع نالہ جگر کاوی ہے گو موزوں ہے

شہر کتنا جو کوئی ان میں سرشک افشاں ہو
رو کش گریۂ غم حوصلۂ ہاموں ہے

خون ہر یک رقم شوق سے ٹپکے تھا ولے
وہ نہ سمجھا کہ مرے نامے کا کیا مضموں ہے

میرؔ کی بات پہ ہر وقت یہ جھنجھلایا نہ کر
سڑی ہے خبطی ہے وہ شیفتہ ہے مجنوں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse