سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
by میر تقی میر

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا

سب کھلا باغ جہاں الا یہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا

بوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے اے باد بہار
ہو گیا ہے چاک دل شاید کسو دلگیر کا

کیونکے نقاش ازل نے نقش ابرو کا کیا
کام ہے اک تیرے منہ پر کھینچنا شمشیر کا

رہ گزر سیل حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا

بس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے درد سر
کام یاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا

نالہ کش ہیں عہد پیری میں بھی تیرے در پہ ہم
قد خم گشتہ ہمارا حلقہ ہے زنجیر کا

جو ترے کوچے میں آیا پھر وہیں گاڑا اسے
تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاک دامن گیر کا

خون سے میرے ہوئی یک دم خوشی تم کو تو لیک
مفت میں جاتا رہا جی ایک بے تقصیر کا

لخت دل سے جوں چھڑی پھولوں کی گوندھی ہے ولے
فائدہ کچھ اے جگر اس آہ بے تاثیر کا

گور مجنوں سے نہ جاویں گے کہیں ہم بے نوا
عیب ہے ہم میں جو چھوڑیں ڈھیر اپنے پیر کا

کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse