سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو
by میر تقی میر

سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو
یاں بہت رہتے ہو خوش باش کہ واں رہتے ہو
ان دنوں یاروں کی آنکھوں سے نہاں رہتے ہو
خوش رہو میرؔ مری جان جہاں رہتے ہو
اک طرف بیٹھے ہوئے ہم بھی لہو پیتے ہیں
عشق کی جان کو دیتے ہیں دعا جیتے ہیں

دل خوشی ہوتا نہیں سبزے سے یا سنبل سے
یعنی اب عشق نہیں مجھ کو خط و کاکل سے
ہم نشیں داغ کھلے دل پہ مرے سب گل سے
آ چمن زار میں گل بازی کروں بلبل سے
شاخ گل پر تو وہ ہو اور لب جو پر میں
داغ کو دل پہ وہ لے گل کے تئیں رو پر میں

ہے زمیں خشک مرے دیدۂ تر سے نایاب
شہر و کہسار و بیابان سبھی ہیں شاداب
ہر طرف اشک سے میرے ہیں رواں صد سیلاب
کام کرتی ہے جہاں تک کہ نظر اب ہے آب
ہے عبث جیتے جی میرے تجھے بارش کا خیال
میں تو روتا ہوں ترے غم میں علیٰ قدر حال

ریزے الماس کے اور مشت نمک مشک کی بو
کس کو یہ سارے بہم پہنچے ہیں ان سے مل تو
لذت درد سے مقدور ہو جب تک کر خو
دیکھ زنہار نہ دے مرہم بدرو کو رو
ننگ و ناموس کو مجروحوں کے رکھ مدنظر
منھ بھرائی میں مری جان لے اے زخم جگر

مدتیں گذریں کہ اے شوخ یہ خواری ہے مجھے
تجھ سے بے رحم ستمگار سے یاری ہے مجھے
روز و شب درد و غم و نالہ و زاری ہے مجھے
بلکہ ہر روز کی شب ہجر میں بھاری ہے مجھے
اہل دل جان کے رکھتا ہے مجھے عشق بتنگ
کاشکے دل کے عوض کوئی ملا ہوتا سنگ

عاقبت کا نظر آیا نہ یک آثار ہمیں
دل کی بے تابی نے ہرچند رکھا خوار ہمیں
حیف صد حیف میسر نہ ہوا یار ہمیں
تیرے کوچے میں کہیں سایۂ دیوار ہمیں
تاکہ واں نالہ و فریاد کیا کرتے ہم
اک طرف بیٹھ تجھے یاد کیا کرتے ہم

کب تلک ہاتھ سے خوباں نہ جفاکاری دیں
اس وفاداری کے بدلے یہ ہمیں خواری دیں
تم کہو کب تئیں ہم داد وفاداری دیں
عشق بن جرم جو کچھ ہو تو گنہگاری دیں
قصد فریاد ہے گر یار ٹک انصاف کریں
پھر وے گو سن کے کدورت سے ہمیں صاف کریں

مت برس خاک پہ عشاق کی ہم کیا کم تھے
حرف دیروزہ ہے یہ دیدہ ہمارے یم تھے
موج سیلاب سے آنسو کے گئے عالم تھے
یعنی اے ابر کسی عہد میں ہم ہی ہم تھے
عزم کر رونے کا آبادی سے گر اٹھتے تھے
بیٹھ کر دشت میں طوفان ہی کر اٹھتے تھے

کون تھا یاں کہ مجھے دیکھ ندامت رکھے
یا مرے سر پہ نصیحت سے قیامت رکھے
میرؔ صدسال خدا تجھ کو سلامت رکھے
تو نہ ہووے نہ مجھے کرکے ملامت رکھے
ورنہ اب تک تو مری خاک بھی ہوجاتی ہوا
لے گئی ہوتی تبرک کی طرح باد صبا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse