سوزش دل سے مفت گلتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سوزش دل سے مفت گلتے ہیں
by میر تقی میر

سوزش دل سے مفت گلتے ہیں
داغ جیسے چراغ جلتے ہیں

اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں

بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں
جیسے دریا کہیں ابلتے ہیں

دم آخر ہے بیٹھ جا مت جا
صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں

تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں
ایسے ڈوبے کہیں اچھلتے ہیں

فتنہ درسر بتان حشر خرام
ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں

نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں
سوتے سے اٹھ کے آنکھ ملتے ہیں

اس سر زلف کا خیال نہ چھوڑ
سانپ کے سر ہی یاں کچلتے ہیں

تھے جو اغیار سنگ سینے کے
اب تو کچھ ہم کو دیکھ ٹلتے ہیں

شمع رو موم کے بنے ہیں مگر
گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں

میرؔ صاحب کو دیکھیے جو بنے
اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse